Pages

Wednesday 11 October 2017

!!! تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام !!! "قسط نمبر چار" . . . . محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!

!!!   تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام  !!!
          
    !!!  قسط نمبر چار       !!!
         ـــــــــــــــــــــــــــــــ    
   محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!
     ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  "قرآن میں بچوں کے حقوق کا ذکر"
   ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
   
        اللہ تعالی نے جس طرح قرآن میں بچوں کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہیں، بچوں سے محبت کی طرف توجہ دلائی ہیں، اسی طرح بچوں کے حقوق سے متعلق پہلو کو بھی بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ اجاگر فرمایا ہیں۔۔۔
   چنانچہ جب بچہ شکمِ مادر ( ماں کے پیٹمیں ہوتا ہے تو قرآن کسی کو حق نہیں دیتا کہ وہ "اس کی زندگی کے ساتھ دست درازی اور زیادتی کرے"
اسی لئے "فقر و فاقہ اور افلاس" کے ڈر سے بچوں کے مارنے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے..
{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا} (سورة بنی اسرائیل / ۳۱)
ترجمہ........
"اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو - ہم انہیں بھی رزق دیں گے، اور تم کو بھی - یقین جانوں ان کا قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے "
( آسان ترجمۂ قرآن )
اس آیت میں اللہ تعالی نے بچوں کے حقوق تلفی سے متعلق ایک ایسے گناہ اور جاہلی رسم کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے، جو پورے معاشرے میں ایک وباء کی طرح پھیل چکی تھی،  بلکہ اب تک  وہ زمانہ بھر میں رائج ہے، ہمہ جہتی  ترقیات کے اس دور میں بھی یہ وباء "مسئلۂ لا ینحل" بنی ہوئی ہے، جس کا ذکر مولانا عبد الماجد دریابادیؒ  اپنی تفسیر میں اس طرح کرتے ہیں۔۔
      " قتلِ اولاد کی حمایت میں ایک بڑی دلیل جاہلی قوموں کے ہاتھ میں والدین کی مفلسی رہی ہے، اور اسی دلیل سے کام لیکر آج بیسویں صدی میں بڑے طمطراق کے ساتھ اور خوشنما اصطلاحات کے پردے میں " منعِ حمل" اور " خاندانی منصوبہ بندی " کی تحریک کو اٹھایا گیا ہے بلکہ اب تو نوبت جوازِ اسقاط کی بھی آگئی ہے'
(تفسیرِ ًماجدی، جلد (۳) صفحہ (۳۴)
             تفسير ا بن كثير میں محدث کبیر علامہ عماد الدین ابن ؒکثیرؒ  تحریر فرماتے ہیں کہ۔۔

"هذه الآية الكريمة دالة على أن اللّه تعالى أرحم بعباده من الوالد بولده، لأنه نهى عن قتل الأولاد، كما أوصى الآباء بالأولاد في الميراث، وكان أهل الجاهلية لا يورثون البنات، بل كان أحدهم ربما قتل ابنته لئلا تكثر عيلته، فنهى اللّه تعالى عن ذلك"
(تفسیر ابن کثیر، جلد، ۳ صفحہ، ۵۵ )
       یہ آیتِ کریم اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت زیادہ مہربان ہے بمقابل انکے آباء کے، شریعت نے جس اہتمام کے ساتھ  میراث کی طرف متوجہ کیا اسی طرح بچوں اور بچیوں کے حقوق اور قتل سے روک تھام کی طرف بھی توجہ کی ہے۔
              اللہ تعالی نے بچوں اور انکے ماں باپ کے رزق کا ذمہ اپنے اوپر لیا ہے، اور صاف بتادیا کہ معصوم کو قتل کرنا عظیم ترین گناہ ہے۔ "اس سے بڑا اور کیا گناہ ہوسکتا کہ کہ دلوں سے رحمت و شفقت کا جذبہ ختم کردیا جائے"۔
       قرآن یتیموں کے حقوق کی حفاظت کے لئے اپنے مانے والوں کو ابھارتا اور آمادہ کرتا ہے' بہت سی آیات یتیم بچوں کے حقوق کی صیانت و حفاظت کی دعوت دیتی ہیں' اولاً سورہ نساء کی آیات کا ذکر کرتا ہوں۔
{وَآتُواْ الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُواْ الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَهُمْ إِلَىأَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوباً كَبِيراً} (سورة النساء / ۲)
ترجمہ .........
"اور یتیموں کوان کے مال دیدو، اور اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو ' اور ان ( یتیموں) کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ ' بیشک یہ بڑا گناہ ہے "
( آسان ترجمۂ قرآن )

اسی سورة میں آگے اس طرح  ارشاد فرمایا کہ۔۔۔۔۔
{وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْداً فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافاً وَبِدَاراً أَن يَكْبَرُواْ}
(سورة النساء / ۶)
ترجمہ .......
اور تم یتیم بچوں کو جانچتے رہو ' یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں ' تو اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو ـ اور یہ مال فضول خرچی کرکے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہو جائیں ـ
( آسان ترجمۂ قرآن )
      
          ان دو آیات میں اللہ تعالی نے نہ صرف یتیم بچوں کہ اموال کو ضائع کرنے سے منع فرمایابلکہ اسکی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری کو امانتداری کے ساتھ ادا کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے اور اس کام میں اس درجہ احتیاط کی تاکید فرمائی ہے کہ یتیم کے مال کو اپنے مال سے الگ رکھنے کا حکم دیا۔
         اگر قرآن کے الفاظ اور اس کے اسلوب  پر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآن ہر اس امکانی پہلو کو بھی واضح کرتا ہوا نظر آتا ہے جو بچوں کی جان و مال' تعلیم و تربیت میں کوتاہی کا سبب ہوسکتا ہو جس پر  اللہ تعالی نے صراحتًا یا اشارتاً قرآن میں اس پر روک لگادی ہے،
مزید چند آیات اور ترجمہ کو ذکرکرتا ہوں  تاکہ اندازہ ہو کہ اللہ تعالی نے ان امور پر کس قدر توجہ دلائی ہے ۔
(۱)  { كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ ۝ وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ ۝ وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا۝
(سورة الفجر / ۱۷ - ۱۹)
ترجمہ........
ہرگز ایسا نہیں چاہیئے ـ  صرف یہی نہیں، بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۝  اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے۝ اور میراث کا سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو۝
( آسان ترجمۂ قرآن )

(۲) {فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَر} ( الضحی / ۹)
ترجمہ.......
"‌‍ اب جو یتیم ہے،  تم اس پر سختی مت کرو "‌‍
( آسان ترجمۂ قرآن )

(۳) {أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّين ۝ ِفَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيم َ۝ ( سورة الماعون / ۱ - ۲)
ترجمہ........
"‌‍ کیا تم نے اسے دیکھا جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ ‌۝ وہ ہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۝ 
( آسان ترجمۂ قرآن )
(۴)   {وَما لَكُمْ لا تُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْ هذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُها وَاجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيراً} ( سورة النساء / ۷۵)
ترجمہ ........ 
"‌‍ اور ( اے مسلمانو ! ) تمہارے پاس کیا جواز ہے' کہ اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کررہے ہیں کہ "‌‍ اے ہمارے پروردگار ! "‌‍  اِس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں،  اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجئے، اور مارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجئے "‌‍
( آسان ترجمۂ قرآن )
آیتِ کریمہ پر غور کیجئے  کہ "جہاد" جیسے عظیم الشان فریضے پر آمادہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے بے وسیلہ و حیلہ مردوں و عورتوں کے ساتھ ناتواں  اور ضعیف بچوں کا ذکر بھی کیا  اسی سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ حقوقِ اولاد و اطفال اور معصوم چھوٹے بچوں کے حقوق کی حفاظت کا قرآن نے کس قدر اہتمام فرمایا ہے' اور مختلف آیات و اسلوب میں باربار ذکر کیا ہے...

یہ چند آیات کو بطور اشارہ یہاں ذکر کیا گیا ہے اس مختصر مضمون میں ان کی تفسیر و تفصیل  کی گنجائش نہیں ہے
۸ / ۱۰ / ۲۰۱۷
جاری
ان شاء اللہ العزیز ✒✒✒✒✒

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔