!!! تربیتِ اولاد اور مذھب اسلام !!!
!!! قسط نمبر سات
!!!
ــــــــــــــــــ
محرر
!!! ابن الادریس میترانوی !!!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
" تربیتِ
اولاد کا اجمالی خاکہ اور سات بنیادیں "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالی نے ابتدائے
آفرینش سے ہی انسان کے دل میں بچوں کی محبت کا بیج بودیا ہے، ہر ماں، باپ بلکہ خاندان اور اس کا ایک ایک فرد
بھی اپنے ماحول اور معاشرہ کے مطابق بچوں کی شخصیت کو بہتر سے بہتر بنانے اور مثالی
تعمیر کا خواہشمند رہا ہے ۔
پہلے زمانوں میں زندگی
انتہائی سادہ اور پُر سکون ہوا کرتی تھیں،
اس میں کوئی پیچیدگی اور گنجلک نہیں ہوتا تھا ، اس لئے بڑوں کی طبائع شیشہ کی طرح بالکل صاف اور
شفاف ہوا کرتی تھی اور چھوٹے بچوں کی طبیعتیں تو ویسے بھی آئینہ کے مانند ہوتی ہیں،
مشکلیں اس وقت رو نما ہوئی جب زندگی میں تبدیلی اور تغیر آنے لگا، تعلیم و تربیت کی
جہتیں تبدیل ہوئی ہی نہیں، بلکہ " یکسر بدل دی گئی، " زمامِ اقتدار اور نظامِ
تعلیم دردمندانِ قوم اور ِ رہنمایانِ ملت کے
ہاتھ سے نکل کر اھل نفس و ہَوَس کے اشاروں پر چلنے والی کٹھ پتلی بن کر رہ گیا، انفرادی و اجتماعی زندگیوں کی ترجیحات و رجحانات
کا رخ بدلا گیا، طبیعتوں میں کجی اور فسادات آنے لگے بلکہ آگئے،
جس کے نتیجہ میں ہر جگہ مختلف تربیتی نظریات و خیالات ظہور پذیر ہوئے، نت نئے اصول مرتب کئے گئے، ہر ایک نے اپنے طور پر
اپنی اپنی شاہ راہوں کو منتخب کیا، ہر مذھب و مکتبۂ فکر والوں نے اسے الجھی گتھی سمجھ
کر اپنے تئیں سلجھانے کی نا کام کوشش کی، اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بجائے اس
کے کہ اپنے پیدا کرنے والے کی مقدس وحی ( قرآن کریم اور آپﷺ کی تعلیمات ) سے رہنمائی
حاصل کرتے، انہوں نے اپنے ہی تجربات و تحقیقات کو بنیاد بنانا شروع کردیا اور نئی نسل
کو اس کی روشنی میں پروان چڑھانے لگیں، اس
طرح کی جدید تحقیقات سے مسلمانانِ عالَم بھی کافی حد تک متأثر ہوئیں، وہ قوم جن کے پاس قرآن جیسا مقدس رہنما موجود
ہو، وہ قوم جن کے پاس اپنے پیغمبرﷺ کے مکمل ارشادات و ھدایات کا ذخیرہ موجود ہو، " عقل حیران ہے کہ جس نے دنیا کو سیراب کیا، وہ آج کیوں کاسۂ گداگری لیئے اپنی تشنہ لبی کو
دور کرنے، در در کی ٹھوکرے کھارہی ہے ؟ جس قوم نے دنیا، جہاں کو تہذیب و تمدن کا سبق پڑھایا وہ خود کیوں
اتنی غیر مہذب و غیر متمدن ہے ؟
اس کی کیا وجہ ہوسکتی
ہے سوائے اس بات کے کہ انہوں نے اپنی رہنما کتاب اور سیرت سے بے اعتنائی برتی ہیں
۔
دانشورانِ اقوام و
ملل کی تحقیقات و تجربات کا نتیجہ بھی ظاہر ہوا، جو ہم نے اپنی کھلی آنکھوں دیکھا اور
اب بھی دیکھ رہے ہیں، ان کی تعلیم و تربیت کے سایہ تلے تربیت پانے والی نسل آج بالکل
خدا فراموش ہی نہیں بلکہ خودفراموشی کے فلک بوس مناروں پر نظر آرہی ہیں، خود غرضی و نفس پرستی کا یہ عالَم ہے کہ اولاد اپنی
اس ماں کو جس نے اس کو خون دیکر پالا پوسا،
نو مہینوں تک ماں کے پیٹ میں رہ کر اس ماں کے خون کو چوس چوس کر اپنے ہی گوشت،
پوشت کو سینچتا رہا، وہ اولاد جس کے لئے باپ نے نہ دن دیکھا نہ رات، نہ صبح دیکھی نہ شام ہر وقت، ہر گھڑی، ہر آن اپنے
ہی بچوں کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں رہا،
آج اسی اولاد نے اپنے ہی باپ اور ماں کو جیتے جی جہنم میں
ڈھکیل دیا، ( لفظ ڈھکیلنا بالارادہ منتخب کیا ہے )اس جہنم سے مراد وہ " اولڈ ہاؤسیز" ( خانۂ بزرگان ) ہیں جو موجودہ
وقت کی بڑی ضرورت اور ایک فیشن (ان کے اپنے معاشرہ میں ) ہے، جہاں ان جیسے بے بس و
لاچار سینکڑوں سے متجاوز ہزاروں کی تعداد میں
بوڑھے باپ اور بوڑھی مائیں رہتی ہیں، جن کی صبح چھت تکتے، شام فرش تکتے،
کٹتی ہیں، جو آنکھیں کبھی ان بچوں کو چین کی نیند سُلانے رات رات بھر جگا کرتی
تھی آج وہ ان کے دیدار کو ترستی رہ گئی ۔
" وہ اندھیرا ہی بھلا
تھا کہ قدم راہ پے تھے "
" روشنی لا ئی ہے منزل
سے بہت دور ہمیں "
یہ نتیجہ اس لئے ظاہر
ہوا کہ ان کی ساری ریسرچ، ساری تحقیقات راہِ
فطرت سے ہٹی ہوئی ہے، آج بھی ان کے دستور
و منشور کا ایک بڑا حصہ فطرت کے عین خلاف ہے، فطرت کو خالقِ فطرت سے بہتر کون جان سکتا
ہے ؟ انسان کی رہبری اس کے اپنے پالنہار و
پروردگار سے بہتر کون کرسکتا ہے ؟
چنانچہ
اللہ تعالی نے اپنے کلام میں واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔
{فَأَقِمْ
وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ
الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِاللَّهِ
ۚ ذَٰلِكَ
الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
}
( سورة الروم
/ ۳۰ )
ترجمہ.....
( لہذا تم
یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم رکھو ۔ اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو
جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی
جاسکتی، یہی بالکل سیدھا راستہ ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے )
( آسان ترجمۂ
قرآن از مفتی تقی صاحب)
آپ اگر عربی داں ہیں
تو قرآنی آیات، الفاظ، ترکیب، اسلوب اور سیاق سباق پر ایک عمیق نظر کیجئے، اور اگر
اردو داں ہیں تو توجہ سے ترجمہ پڑھیئے، قرآن
کریم ایک جامع ترین اصول کی طرف رہنمائی فرما رہا ہے، مردہ ضمیر دانشوران نے اصول تربیت، نظامِ معاشرت، زمام اقتدار کی باگ دوڑ کو سنبھالنے،
اجتماعی و انفرادی دستورِ حیات کے لئے خلافِ فطرت جو اصولی نظام اور چارٹر تیار کیا
ہے یہ آیت اور اسلوبِ آیت بہ یک جنبشِ قلم
سب کو نہ صرف مسترد کرتا ہے بلکہ
"ِّ " وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ
النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
" "
" " اکثریت بے علم جہلاء کی ہیں "
" یہ کہ کر ان دانشوران کو دعوت دیتا ہے نہ صرف اپنے دستور و منشور کو بلا توقف
دریا برد کریں یا نذرِ آتش کریں بلکہ اپنی کوتاہ بینی و کم عقلی پر ماتم بھی کریں۔
اب میں اپنے قارئین کو ان اصولوں اور
نظامِ تربیت سے بتدریج واقف کرانے کی کوشش کرونگا جو قرآن، احادث و سیرت رسولﷺ اور
فطرت کے عین مطابق ہی نہیں بلکہ تقاضۂ فطرت ہی ہے۔
ان اصول و ترتیب کو
اھل علم نے مندرجۂ ذیل سات ابواب اور ابواب کے ذیل میں مختلف فصول پر منقسم کیا ہیں۔
ابواب کی
تقسیم کچھ اس طرح سے ترتیب دی گئی ہے۔
( ۱ ) ایمانی تربیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ۲ ) اخلاقی تربیت۔۔۔۔۔۔۔۔
( ۳ ) جسمانی تربیت۔۔۔۔۔۔۔
( ۴ ) عقلی تربیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ۵ ) نفسیاتی تربیت۔۔۔۔۔۔۔
( ۶ )اجتماعی و سماجی تربیت۔۔۔۔۔۔
( ۷ ) جنسی تربیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سات
ابواب کی تقسیم اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں سے مشہور، و جامع ترین، معرکۃ الآراء
کتاب " تربیة الاولاد فی الاسلام
" سے لی گئی ہے، جس کے مصنف، عالم اسلام کے مستند و معروف ترین اور مشہور عالم
دین " الدکتور عبد اللہ ناصح علوان
" رحمہ اللہ تعالی ہیں۔
۲۹ \ ۱۰
\ ۲۰۱۷
Juneddhukka@gmail.com
جاری
ان شاء
اللہ العزیز ✒✒✒✒