Pages

Monday 30 October 2017

!!! تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام !!! "قسط نمبر سات " . . . . محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!


!!!  تربیتِ اولاد اور مذھب اسلام  !!!
        !!! قسط نمبر سات !!!
            ــــــــــــــــــ
محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

" تربیتِ اولاد کا اجمالی خاکہ اور سات بنیادیں "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
          
         اللہ تعالی نے ابتدائے آفرینش سے ہی انسان کے دل میں بچوں کی محبت کا بیج بودیا ہے،  ہر ماں، باپ بلکہ خاندان اور اس کا ایک ایک فرد بھی اپنے ماحول اور معاشرہ کے مطابق بچوں کی شخصیت کو بہتر سے بہتر بنانے اور مثالی تعمیر کا خواہشمند رہا ہے ۔
         
           پہلے زمانوں میں زندگی انتہائی سادہ اور پُر سکون ہوا کرتی تھیں،  اس میں کوئی پیچیدگی اور گنجلک نہیں ہوتا تھا ،  اس لئے بڑوں کی طبائع شیشہ کی طرح بالکل صاف اور شفاف ہوا کرتی تھی اور چھوٹے بچوں کی طبیعتیں تو ویسے بھی آئینہ کے مانند ہوتی ہیں، مشکلیں اس وقت رو نما ہوئی جب زندگی میں تبدیلی اور تغیر آنے لگا، تعلیم و تربیت کی جہتیں تبدیل ہوئی ہی نہیں، بلکہ " یکسر بدل دی گئی، " زمامِ اقتدار اور نظامِ تعلیم  دردمندانِ قوم اور ِ رہنمایانِ ملت کے ہاتھ سے نکل کر اھل نفس و ہَوَس کے اشاروں پر چلنے والی کٹھ پتلی بن کر رہ گیا،  انفرادی و اجتماعی زندگیوں کی ترجیحات و رجحانات کا رخ  بدلا گیا،  طبیعتوں میں کجی اور فسادات آنے لگے بلکہ آگئے، جس کے نتیجہ میں ہر جگہ مختلف تربیتی نظریات و خیالات ظہور پذیر ہوئے،  نت نئے اصول مرتب کئے گئے، ہر ایک نے اپنے طور پر اپنی اپنی شاہ راہوں کو منتخب کیا، ہر مذھب و مکتبۂ فکر والوں نے اسے الجھی گتھی سمجھ کر اپنے تئیں سلجھانے کی نا کام کوشش کی، اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بجائے اس کے کہ اپنے پیدا کرنے والے کی مقدس وحی ( قرآن کریم اور آپﷺ کی تعلیمات ) سے رہنمائی حاصل کرتے، انہوں نے اپنے ہی تجربات و تحقیقات کو بنیاد بنانا شروع کردیا اور نئی نسل کو اس کی روشنی میں پروان چڑھانے لگیں،  اس طرح کی جدید تحقیقات سے مسلمانانِ عالَم بھی کافی حد تک متأثر ہوئیں،    وہ قوم جن کے پاس قرآن جیسا مقدس رہنما موجود ہو، وہ قوم جن کے پاس اپنے پیغمبرﷺ کے مکمل ارشادات و ھدایات کا ذخیرہ موجود ہو،   " عقل حیران ہے کہ جس نے دنیا کو سیراب کیا،   وہ آج کیوں کاسۂ گداگری لیئے اپنی تشنہ لبی کو دور کرنے،  در در کی ٹھوکرے کھارہی ہے ؟   جس قوم نے دنیا،  جہاں کو تہذیب و تمدن کا سبق پڑھایا وہ خود کیوں اتنی غیر مہذب و غیر متمدن ہے ‌‍ ؟     
              اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے سوائے اس بات کے کہ انہوں نے اپنی رہنما کتاب اور سیرت سے بے اعتنائی برتی ہیں ۔
       دانشورانِ اقوام و ملل کی تحقیقات و تجربات کا نتیجہ بھی ظاہر ہوا، جو ہم نے اپنی کھلی آنکھوں دیکھا اور اب بھی دیکھ رہے ہیں، ان کی تعلیم و تربیت کے سایہ تلے تربیت پانے والی نسل آج بالکل خدا فراموش ہی نہیں بلکہ خودفراموشی کے فلک بوس مناروں  پر نظر آرہی ہیں،  خود غرضی و نفس پرستی کا یہ عالَم ہے کہ اولاد اپنی اس ماں کو جس نے اس کو خون دیکر پالا پوسا،  نو مہینوں تک ماں کے پیٹ میں رہ کر اس ماں کے خون کو چوس چوس کر اپنے ہی گوشت، پوشت کو سینچتا رہا، وہ اولاد جس کے لئے باپ نے نہ دن دیکھا نہ رات،  نہ صبح دیکھی نہ شام ہر وقت، ہر گھڑی، ہر آن اپنے ہی بچوں کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں رہا،  آج  اسی  اولاد نے اپنے ہی باپ اور ماں کو جیتے جی جہنم میں ڈھکیل دیا، ( لفظ ڈھکیلنا بالارادہ منتخب کیا ہے )اس جہنم سے مراد وہ "  اولڈ ہاؤسیز" ( خانۂ بزرگان ) ہیں جو موجودہ وقت کی بڑی ضرورت اور ایک فیشن (ان کے اپنے معاشرہ میں ) ہے، جہاں ان جیسے بے بس و لاچار سینکڑوں سے متجاوز ہزاروں کی تعداد میں  بوڑھے باپ اور بوڑھی مائیں رہتی ہیں، جن کی صبح چھت تکتے،  شام فرش تکتے،  کٹتی ہیں، جو آنکھیں کبھی ان بچوں کو چین کی نیند سُلانے رات رات بھر جگا کرتی تھی آج وہ ان کے دیدار کو ترستی رہ گئی ۔
  " وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پے تھے "
  " روشنی لا ئی ہے منزل سے بہت دور ہمیں "
            یہ نتیجہ اس لئے ظاہر ہوا کہ ان کی ساری ریسرچ،  ساری تحقیقات راہِ فطرت سے ہٹی ہوئی ہے،   آج بھی ان کے دستور و منشور کا ایک بڑا حصہ فطرت کے عین خلاف ہے، فطرت کو خالقِ فطرت سے بہتر کون جان سکتا ہے ؟   انسان کی رہبری اس کے اپنے پالنہار و پروردگار سے بہتر کون کرسکتا ہے ؟ 
چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔
{فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِاللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ }
( سورة الروم / ۳۰‌ )
ترجمہ.....
( لہذا تم یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم رکھو ‌۔ اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی، یہی بالکل سیدھا راستہ ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے )
( آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی صاحب)

            آپ اگر عربی داں ہیں تو قرآنی آیات، الفاظ، ترکیب، اسلوب اور سیاق سباق پر ایک عمیق نظر کیجئے، اور اگر اردو داں ہیں تو توجہ سے ترجمہ پڑھیئے،  قرآن کریم ایک جامع ترین اصول کی طرف رہنمائی فرما رہا ہے،  مردہ ضمیر دانشوران نے اصول تربیت،  نظامِ معاشرت، زمام اقتدار کی باگ دوڑ کو سنبھالنے، اجتماعی و انفرادی دستورِ حیات کے لئے خلافِ فطرت جو اصولی نظام اور چارٹر تیار کیا ہے یہ آیت اور اسلوبِ آیت  بہ یک جنبشِ قلم سب کو نہ صرف مسترد کرتا ہے بلکہ 
  "‌‍ِّ " وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ  " "
   " "  اکثریت بے علم جہلاء کی ہیں " " یہ کہ کر ان دانشوران کو دعوت دیتا ہے نہ صرف اپنے دستور و منشور کو بلا توقف دریا برد کریں یا نذرِ آتش کریں بلکہ اپنی کوتاہ بینی و کم عقلی پر ماتم بھی کریں۔
     
      اب میں اپنے قارئین کو ان اصولوں اور نظامِ تربیت سے بتدریج واقف کرانے کی کوشش کرونگا جو قرآن، احادث و سیرت رسولﷺ اور فطرت کے عین مطابق ہی نہیں بلکہ تقاضۂ فطرت ہی ہے۔
           ان اصول و ترتیب کو اھل علم نے مندرجۂ ذیل سات ابواب اور ابواب کے ذیل میں مختلف فصول پر منقسم کیا ہیں۔
ابواب کی تقسیم کچھ اس طرح سے ترتیب دی گئی ہے۔
( ۱ ) ایمانی تربیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ۲ ) اخلاقی تربیت۔۔۔۔۔۔۔۔
( ۳ ) جسمانی تربیت۔۔۔۔۔۔۔
( ۴ ) عقلی تربیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ۵ ) نفسیاتی تربیت۔۔۔۔۔۔۔
( ۶ )اجتماعی و سماجی تربیت۔۔۔۔۔۔
( ۷ ) جنسی تربیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سات ابواب کی تقسیم اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں سے مشہور، و جامع ترین، معرکۃ الآراء کتاب  " تربیة الاولاد فی الاسلام " سے لی گئی ہے، جس کے مصنف، عالم اسلام کے مستند و معروف ترین اور مشہور عالم دین  " الدکتور عبد اللہ ناصح علوان " رحمہ اللہ تعالی ہیں۔
۲۹ \ ۱۰ \ ۲۰۱۷
Juneddhukka@gmail.com
جاری
ان شاء اللہ العزیز ✒✒✒✒


مکمل تحریر >>

Thursday 26 October 2017

!!! تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام !!! "قسط نمبر چھ " . . . . محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!

!!! تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام !!!
 
         !!!  قسط نمبر چھ  !!!
            ـــــــــــــــــــــــ
                                             
     محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!
        ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    " قرآن میں تحفظِ اطفال کا اہتمام "
     ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


          قرآن کریم کا دامنِ نعمت و عنایت اس سے بھی وسیع تر ہے،  وہ اس طرح کہ نہ صرف ماؤں کو مکلف بنایا کہ وہ بچوں کو دودھ پلائیں  "" بلکہ ماہ رمضان میں بھی اللہ تعالی نے روزہ میں رخصت دی ہے کہ ماں یا بچے کو روزہ کی وجہ سے خطرہ لاحق ہو،  یا روزہ کی وجہ سے دودھ میں کمی واقع ہونے کے امکانات ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں،  البتہ بعد رمضان اس کی قضا کریں ""      
( آپ کے مسائل اور انکا حل جلد/۴   ص/۵۶۶ /۵۶۷ )
       بچہ کو دودھ پلانے کے علاوہ قرآن نے ایک ایسے امر کی طرف توجہ مبذول کرائی جو نہایت ہی اہم اور انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہے،   اور باپ کو مکلف بنایا کہ " بچہ کی ماں یا وہ " انا "  جو بچہ کو دودھ پلانے کے لئے متعین کی گئی ہے اس کا بار بھی بچہ کے باپ کے ذمہ ہے ،  چنانچہ ارشاد وارد ہوا.....
{ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ }
( سورة البقرہ آیت / ۲۳۳ )
ترجمہ......
" اور باپ پر جس کے لئے دراصل یہ بچہ پیدا کیا گیا ہے،  ان دودھ پلانے والیوں کا کھانا اور پہنانا دستور کے مطابق واجب ہے "
         اس آیت اور اس کے اسلوبِ بیان پر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے بچوں کے تحفظ کا مکمل اہتمام فرمایا ہے اور ہر اس دروازہ کو بند کردیا ہے، جس سے کسی بھی طرح کی خرابی یا کمزوری کے در آنے کا امکان تھا،  ماں اور باپ دونوں کے دونوں اس شیر خوار بچہ کے بارے میں مسئول و ذمہ دار ہیں،  ہر ایک اپنی مقدور بھر کوشش کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داری ادا کریں،  تاکہ شیر خوار بچہ کی تمام ضروریات کا اہتمام،  خیال اور محافظت ہوسکے.
            نسب اور شیر خواری کے علاوہ بچہ کے لئے اہم ترین امر اس کا نام رکھنا ہے،  اس بات کو بھی قرآن نے اہتماماً بیان فرمایا،  نام کو بچہ کے جملہ  حفاظتی حقوق میں سے قرار دیا،  اس لئے کہ" نام شئے کی علامت ہوتا ہے "  اس لئے اسلام نے بچہ کے لئے اچھے نام کو اختیار کرنے کا حکم دیا،  اور والدین کو ترغیب دی کہ بچوں کا پسندیدہ اور بامعنی قسم کا نام رکھیں،  یا بچہ کے لئے ایسی عمدہ صفت کا انتخاب کریں جس سے دل فرحت محسوس کرے اور طبیعت مطمئن ہو،  یا وہ نام و صفت نیک فال اور نیک امید یا شجاعت و بہادری اور نشاط و ہمت پر دلالت کرتے ہوں،
      چنانچہ قرآن کریم نے حضرت زکریا اور حضرت یحیٰ علیہما السلام کے قصہ میں اس پہلو کو بیان کیا ہے،

فرمان رب العالمین ہے.....
يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا }
(سورة المریم  آیت / ۷ )
ترجمہ.....
" اے زکریاؑ !  ہم تم کو ایک فرزند کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا کہ اس سے پہلے ہم نے کسی کو اس نام کا نہیں بنایا "
       یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ بچہ کا نام خوبصورت،  عمدہ اور قابل عزت تجویز کرنا چاہیئے،  اسی لئے والدین کو اپنے بچے کے نام کی تجویز و تعیین کے لئے والدین کو ایک وقت بھی دیا گیا،  یعنی پیدائش کے سات دن تک ماں باپ کو موقع دیا گیا کہ اس عرصہ کے اندر بچہ کا نام متعین کرلیں، 
آپﷺ  نے ارشاد فرمایا... ..
عن انس ابن مالک ؓ   " کل غلام رھین بعقیقته تذبح عنه یوم سابعه و یحلق و یسمی "
سنن أبي داود و ترمذي و نسائي و ابن ماجة و غیرها بالأسانید الصحیحة }
ترجمہ.....
حضرت انس بن مالکؓ  فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا " لڑکے کا ساتویں دن عقیقہ کیا جائے،  نام رکھا جائے،  اور سر کے بال دور کئے جائے "‌‍
ان سات دنوں کا وقت دینا گویا اس بات کا اشارہ ہے کہ ناموں،  ان کے معانی،  ان کے وصف پر اچھی طرح غور و فکر کیا جائے اور اس کے بعد بہتر سے بہترین کا انتخاب کیا جائے.

۲۲ / ۱۰ / ۲۰۱۷
juneddhukka@gmail.com
جاری
ان شاء اللہ العزیز✒✒✒✒



مکمل تحریر >>

!!! تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام !!! "قسط نمبر پانچ " . . . . محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!

!!!  تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام  !!!
           !!! قسط نمبر پانچ !!!
            ــــــــــــــــــــــــ
   مُحرر !!!  ابن الادریس میترانوی  !!!
         ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

" قرآن میں تحفظِ اطفال کا اہتمام‌ "                                               ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
             
قرآن نے جس طرح طفل و طفولیت ( بچہ اور بچپن ) کے مرحلوں کا ذکر کیا ہے، بچوں سے محبت کے متعلق جو معتدلانہ احکامات دیئے ہیں اور جس طرح ان کے حقوق کا ذکر کیا ہیں اسی طرح بچوں کی حفاظت اور ان کے تحفظ کا بھی اہتمام کیا ہے، مختلف سورتوں اور آیات میں احکامات نازل فرمائے ہیں،  اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر وہ بات جو بچوں کے تحفظ سے متعلق ہو اس کو  قرآن نے اہتمام کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور تربیت کرنے والوں کی بھی خوب رہنمائی کی ہے، چاہے وہ ماں کے پیٹ میں تحفظ کے قبیل سے ہو یا نو مولود کے حسب و نسب کے تعلق سے،  یا پھر اس کے دودھ پلانے،  نان نفقہ،  پرورش اور وراثت ہی کی تعلق سے کیوں نہ ہو۔
           بچوں کے تحفظ کے سلسلہ میں ایک اہتمام قرآن نے یہ کیا ہے کہ اس کے نسب کی حفاظت کا حکم دیا تاکہ وہ بچہ اپنے خاندان  میں ذی شان بن کر زندگی بسر کرے اور معاشرہ میں بے حیثیت سمجھ کر اس کو اس کے حقِ میراث اور جائز حقوق سے محروم نہ کردیا جائے،  چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ مجید نے اس اہم ترین پہلو کو واضح فرماتے ہوئے پوری امتِ مسلمہ کو ان الفاظ  میں مامور و مخاطب کیا ہے۔
{ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا }
( سورة الاحزاب / ۵)
ترجمہ............
" تم اُن ( منھ بولے بیٹوں ) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو ‌ـ یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے ـ  اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں،  تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں ـ اور تم سے جو غلطی ہوجائے، اس کی وجہ سے تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، البتہ جو بات تم اپنے دِلوں سے جان بوجھ کر کرو ( اس پر گناہ ہے )،  اور بیشک اللہ بہت بخشنے والا،  بڑا مہربان ہے ـ "
( آسان ترجمۂ قرآن )
          نسب و نسبت کے متعلق احادث مبارکہ میں بھی واضح الفاظ میں رہنمائی کی گئی ہیں، بلکہ عملی نمونہ بھی موجود ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ.....
" اخبرنا عبد الواحد المليحي، أخبرنا أحمد بن عبد الله النعيمي، أخبرنا محمد بن يوسف، أخبرنا محمد بن إسماعيل، أخبرنا معلى بن أسد، أخبرنا عبد العزيز بن المختار، أخبرنا موسى بن عقبة، حدثني سالم عن عبد الله بن عمر أن زيد بن حارثة مولى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال : ما كنا ندعوه إلا زيد بن محمد حتى نزل القرآن
( تفسیر بغوی صفحہ /۳۱۸)
ترجمہ.........
" حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہے کہ زید ابن حارثہؓ کو ہم آپ ﷺ کی طرف منسوب کرتے اور " زید بن محمدﷺ "کے نام سے پکارا کرتے تھے، لیکن جب اس آیت میں ممانعت نازل ہوئی تو ہم سب زید بن حارثہؓ ہی کہنے لگیں۔
            
        زندگی کا بنیادی حق نسب ہے جس کو قرآن نے تحفظ دیا اور حکم دیا کہ بچوں کو ان کے حقیقی والد کی طرف منسوب کیا جائے تاکہ اس کا تحفظ ہو۔
اور ایک روایت ہے جس میں آپﷺ نے صراحتاً اس بات سے روکا ہے کہ بچوں کو ان کے اصل والد کے علاوہ کسی غیر کے ساتھ منسوب کیا جائے ‌۔
عن عثمان بن سعد رضي الله عنه قال
سمعت النبي صلى الله عليه وسلم  يقول ‌‍ " من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبیہ فالجنة عليه حرام"‌‍  فذكرته لأبي بكرة فقال و سمعته أذناي و وعاه قلبي من رسول الله صلى الله عليه و سلم
( صحیح بخاری کتاب الفرائض )
حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے ........
آپﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے جانتے ہوئے کسی کو اس کے والد کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کیا تو اس پر جنت حرام ہے"۔
          معلوم ہوا کہ بچے کا اپنے حقیقی باپ کی طرف منسوب ہونا اسے ضائع ہونے ، گمراہی اور آوارگی سے محفوظ رکھتا ہے،  اور باپ کے بغیر بچے کا وجود اس  کے لئے بہت سی معاشراتی اذیتوں اور تکلیفوں کا سبب ہے ـ
         قرآن اس کے علاوہ چند ایسے امور اور ایسی باتوں کی حفاظت کا حکم بھی والدین اور سرپرستوں کو دیتا ہے جو بچے کئے لئے اہم ترین ہیں۔
چنانچہ ارشار وارد ہوا :
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَۚ }
( سورة البقره / ٢٣٣)
ترجمہ..........
" اور مائیں اپنے بچوں کو دوسال کامل دودھ پلایا کریں،  یہ مدت اس کے لئے ہے جو شیر خوارگی کی تکمیل کرنا چاہے‌"۔
             
        یقینًا بچہ اپنی پیدائش کے بعد اور ابتدائے حیات میں اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ از خود ایسی غذا استعمال کرسکے جو اس کی زندگی کی حفاظت اور نشو و نما کے لئے ضروری ہے،   اس کے لئے یہی مناسب تھا کہ وہ رضاعت  کا طریقہ اختیار کرے یعنی ماں یا کوئی دودھ پلانے والی اسے چند مخصوص دنوں تک دودھ پلائے، اس کا بھی اللہ تعالی نے قرآن میں حکم نازل فرمادیا کہ کامل دو سال دودھ پلائے،  کیونکہ اللہ تعالی خوب جانتے ہیں کہ دوسال کی مدت بچہ کے نشو و نما کے لئے ہر طرح سے بہترین ہوتی ہے۔
        دور حاضر کے ماہر اطباء نے اپنی طبی ابحاث و تحقیقات میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ دو سال کی مدت بچہ کی جسمانی اور ذہنی نشو و نما کے اعتبار سے ضروری اور لازمی مدت ہے۔
(((  جدید طبی اور سائنسی تحقیقات کی تفصیلات، مناسب موقع پر ذکر کی جائے گی ان شاء اللہ العزیز )))
۱۵ \ ۱۰ \ ۲۰۱۷
juneddhukka@gmail.com
جاری
ان شاء اللہ العزیز....... ✒✒✒✒✒

مکمل تحریر >>

Wednesday 11 October 2017

!!! تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام !!! "قسط نمبر چار" . . . . محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!

!!!   تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام  !!!
          
    !!!  قسط نمبر چار       !!!
         ـــــــــــــــــــــــــــــــ    
   محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!
     ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  "قرآن میں بچوں کے حقوق کا ذکر"
   ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
   
        اللہ تعالی نے جس طرح قرآن میں بچوں کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہیں، بچوں سے محبت کی طرف توجہ دلائی ہیں، اسی طرح بچوں کے حقوق سے متعلق پہلو کو بھی بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ اجاگر فرمایا ہیں۔۔۔
   چنانچہ جب بچہ شکمِ مادر ( ماں کے پیٹمیں ہوتا ہے تو قرآن کسی کو حق نہیں دیتا کہ وہ "اس کی زندگی کے ساتھ دست درازی اور زیادتی کرے"
اسی لئے "فقر و فاقہ اور افلاس" کے ڈر سے بچوں کے مارنے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے..
{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا} (سورة بنی اسرائیل / ۳۱)
ترجمہ........
"اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو - ہم انہیں بھی رزق دیں گے، اور تم کو بھی - یقین جانوں ان کا قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے "
( آسان ترجمۂ قرآن )
اس آیت میں اللہ تعالی نے بچوں کے حقوق تلفی سے متعلق ایک ایسے گناہ اور جاہلی رسم کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے، جو پورے معاشرے میں ایک وباء کی طرح پھیل چکی تھی،  بلکہ اب تک  وہ زمانہ بھر میں رائج ہے، ہمہ جہتی  ترقیات کے اس دور میں بھی یہ وباء "مسئلۂ لا ینحل" بنی ہوئی ہے، جس کا ذکر مولانا عبد الماجد دریابادیؒ  اپنی تفسیر میں اس طرح کرتے ہیں۔۔
      " قتلِ اولاد کی حمایت میں ایک بڑی دلیل جاہلی قوموں کے ہاتھ میں والدین کی مفلسی رہی ہے، اور اسی دلیل سے کام لیکر آج بیسویں صدی میں بڑے طمطراق کے ساتھ اور خوشنما اصطلاحات کے پردے میں " منعِ حمل" اور " خاندانی منصوبہ بندی " کی تحریک کو اٹھایا گیا ہے بلکہ اب تو نوبت جوازِ اسقاط کی بھی آگئی ہے'
(تفسیرِ ًماجدی، جلد (۳) صفحہ (۳۴)
             تفسير ا بن كثير میں محدث کبیر علامہ عماد الدین ابن ؒکثیرؒ  تحریر فرماتے ہیں کہ۔۔

"هذه الآية الكريمة دالة على أن اللّه تعالى أرحم بعباده من الوالد بولده، لأنه نهى عن قتل الأولاد، كما أوصى الآباء بالأولاد في الميراث، وكان أهل الجاهلية لا يورثون البنات، بل كان أحدهم ربما قتل ابنته لئلا تكثر عيلته، فنهى اللّه تعالى عن ذلك"
(تفسیر ابن کثیر، جلد، ۳ صفحہ، ۵۵ )
       یہ آیتِ کریم اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت زیادہ مہربان ہے بمقابل انکے آباء کے، شریعت نے جس اہتمام کے ساتھ  میراث کی طرف متوجہ کیا اسی طرح بچوں اور بچیوں کے حقوق اور قتل سے روک تھام کی طرف بھی توجہ کی ہے۔
              اللہ تعالی نے بچوں اور انکے ماں باپ کے رزق کا ذمہ اپنے اوپر لیا ہے، اور صاف بتادیا کہ معصوم کو قتل کرنا عظیم ترین گناہ ہے۔ "اس سے بڑا اور کیا گناہ ہوسکتا کہ کہ دلوں سے رحمت و شفقت کا جذبہ ختم کردیا جائے"۔
       قرآن یتیموں کے حقوق کی حفاظت کے لئے اپنے مانے والوں کو ابھارتا اور آمادہ کرتا ہے' بہت سی آیات یتیم بچوں کے حقوق کی صیانت و حفاظت کی دعوت دیتی ہیں' اولاً سورہ نساء کی آیات کا ذکر کرتا ہوں۔
{وَآتُواْ الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُواْ الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَهُمْ إِلَىأَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوباً كَبِيراً} (سورة النساء / ۲)
ترجمہ .........
"اور یتیموں کوان کے مال دیدو، اور اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو ' اور ان ( یتیموں) کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ ' بیشک یہ بڑا گناہ ہے "
( آسان ترجمۂ قرآن )

اسی سورة میں آگے اس طرح  ارشاد فرمایا کہ۔۔۔۔۔
{وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْداً فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافاً وَبِدَاراً أَن يَكْبَرُواْ}
(سورة النساء / ۶)
ترجمہ .......
اور تم یتیم بچوں کو جانچتے رہو ' یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں ' تو اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو ـ اور یہ مال فضول خرچی کرکے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہو جائیں ـ
( آسان ترجمۂ قرآن )
      
          ان دو آیات میں اللہ تعالی نے نہ صرف یتیم بچوں کہ اموال کو ضائع کرنے سے منع فرمایابلکہ اسکی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری کو امانتداری کے ساتھ ادا کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے اور اس کام میں اس درجہ احتیاط کی تاکید فرمائی ہے کہ یتیم کے مال کو اپنے مال سے الگ رکھنے کا حکم دیا۔
         اگر قرآن کے الفاظ اور اس کے اسلوب  پر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآن ہر اس امکانی پہلو کو بھی واضح کرتا ہوا نظر آتا ہے جو بچوں کی جان و مال' تعلیم و تربیت میں کوتاہی کا سبب ہوسکتا ہو جس پر  اللہ تعالی نے صراحتًا یا اشارتاً قرآن میں اس پر روک لگادی ہے،
مزید چند آیات اور ترجمہ کو ذکرکرتا ہوں  تاکہ اندازہ ہو کہ اللہ تعالی نے ان امور پر کس قدر توجہ دلائی ہے ۔
(۱)  { كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ ۝ وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ ۝ وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا۝
(سورة الفجر / ۱۷ - ۱۹)
ترجمہ........
ہرگز ایسا نہیں چاہیئے ـ  صرف یہی نہیں، بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۝  اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے۝ اور میراث کا سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو۝
( آسان ترجمۂ قرآن )

(۲) {فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَر} ( الضحی / ۹)
ترجمہ.......
"‌‍ اب جو یتیم ہے،  تم اس پر سختی مت کرو "‌‍
( آسان ترجمۂ قرآن )

(۳) {أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّين ۝ ِفَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيم َ۝ ( سورة الماعون / ۱ - ۲)
ترجمہ........
"‌‍ کیا تم نے اسے دیکھا جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ ‌۝ وہ ہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۝ 
( آسان ترجمۂ قرآن )
(۴)   {وَما لَكُمْ لا تُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْ هذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُها وَاجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيراً} ( سورة النساء / ۷۵)
ترجمہ ........ 
"‌‍ اور ( اے مسلمانو ! ) تمہارے پاس کیا جواز ہے' کہ اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کررہے ہیں کہ "‌‍ اے ہمارے پروردگار ! "‌‍  اِس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں،  اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجئے، اور مارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجئے "‌‍
( آسان ترجمۂ قرآن )
آیتِ کریمہ پر غور کیجئے  کہ "جہاد" جیسے عظیم الشان فریضے پر آمادہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے بے وسیلہ و حیلہ مردوں و عورتوں کے ساتھ ناتواں  اور ضعیف بچوں کا ذکر بھی کیا  اسی سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ حقوقِ اولاد و اطفال اور معصوم چھوٹے بچوں کے حقوق کی حفاظت کا قرآن نے کس قدر اہتمام فرمایا ہے' اور مختلف آیات و اسلوب میں باربار ذکر کیا ہے...

یہ چند آیات کو بطور اشارہ یہاں ذکر کیا گیا ہے اس مختصر مضمون میں ان کی تفسیر و تفصیل  کی گنجائش نہیں ہے
۸ / ۱۰ / ۲۰۱۷
جاری
ان شاء اللہ العزیز ✒✒✒✒✒

مکمل تحریر >>