Pages

Wednesday 4 October 2017

!!! تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام !!! "قسط نمبر دو" . . . . محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!

!!!  تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام  !!!
     
      !!!   قسط نمبر دو !!!
           ـــــــــــــــــــــــ
   محرر !!!  ابن الادریس میترانوی !!!
     ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

     !!! بچپن کا ذکر قرآن میں !!!
     ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  
            بچے اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہیں ، اللہ تعالی نے بطور امتحان و آزمائش ہمارے سپرد کیا ہے، بچے مستقبل کا سرمایہ ہیں، بچے قوم کی امانت ہیں، بچوں کی تعمیر مستقبل کی تعمیر ہے، بچوں کی اصلاح آنے والے وقت کی اصلاح ہے، کیونکہ انسان کی پوری زندگی کا مدار اس کے اپنے بچپن کے شب و روز پر ہے، کامیابی و ناکامی  زمانہء طفولیت کی تعلیم و تربیت پر موقوف ہے، اسی وجہ سے اسلام نے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاطر خواہ توجہ دی ہے، اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر الگ الگ انداز سے اس کی اہمیت کو واضح فرمایا ہیں، قرآنِ کریم میں بچوں اور بچیوں کے متعلق بے شمار ہدایات و ارشادات موجود ہیں، یہ کتابِ الہی فوائد و بدائع سے بھری ہوئی ہے، اور یہ ارشادات انتہائی فکر انگیز اور مؤثر بھی ہیں،
      
     ہر انسان زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے، جس کا ذکر قرآن اپنے مخصوص انداز میں اس طرح کرتا ہے
(۱وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ۝
       (سورة المؤمون / آیة نمبر ۱۲‌‍
ترجمہ.....
انسان کو چنی ہوئی مٹی سے پیدا کیا،
(۲) فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ ۝  خُلِقَ مِن مَّاء دَافِقٍ.۝
   ( سورة الطارق / آیت نمبر  ۵/۶ )
  
ترجمہ........
اب انسان کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیا  ہے ۝ ایک اُچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا  ۝
( آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی )

(۳) يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَي أَجَلٍ مُّسَمّي ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّي وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَي أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلاَ يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئاً وَتَرَي الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ۝
  ( سورة الحج آیت نمبر ۵ )
ترجمہ......
اے لوگو !  اگر تمہیں دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں کچھ شک ہے تو ( ذرا سوچو کہ )  ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا،  پھر نطفے سے،  پھر جمے ہوئے خون سے، پھر ایک گوشت کے لوتھڑے سے جو ( کبھی) پورا بن جاتا ہے اور ( کبھی ) پورا نہیں بنتا ، تاکہ ہم تمہارے لئے ( تمہاری ) حقیقت کھول کر بتادیں، اور ہم ( تمہیں) ماؤں کے پیٹ میں جب تک چاہتے ہیں، ایک متعین مدت تک ٹھرا رکھتے ہیں، پھر تمہیں ایک بچہ کی شکل میں باہر لاتے ہیں، پھر ( تمہیں پالتے  ہیں ) تاکہ تم اپنی بھر پور عمر تک پہنچ جاؤ، اور تم میں سے بعض وہ ہیں جو ( پہلے ہی ) دنیا سے اٹھا لئے جاتے ہیں، اور تمہی میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کو بد ترین عمر ( یعنی انتہائی بڑھاپے ) تک لوٹا دیا جاتا ہیں، یہاں تک کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے،
( آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی )

انسان کو اللہ تعالی نے ایک خاص قسم کی مٹی سے بنایا،
پھر نطفہ سے گزارا،
اس کے بعد خون کا لوتھڑا ہوا،
پہر ہڈیاں بنیں،
روح پھونکی گئی،
اور ایک مدت کے بعد انسانِ کامل بنا کر اللہ تعالی اس کو بچہ کی شکل میں دنیا میں بھیجتے ہے، جو ابتدا میں بالکل ناتواں اور کمزور ہوتا ہے، اس کے بعد وہ بچہ قوت و عقل اور جسم و بدن کے کمال اور ظاھری و باطنی قوتوں کی حدِ تمام تک پہنچتا ہے،   "" خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ چالیس سال کی عمر میں حاصل ہوتا ہے""
ان ادوار و احوال کے بعد وہ بچہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے بالآخر وہ  بحکمِ خداوندی عمر گزار کر زندگی کا سفر پورا کرلیتا ہے..........
          یہ ربانی تصویر ہے جس کو اللہ عز و جل نے قرآن میں ذکرکیا ہے.
سورة الغافر کی آیت (۶۷) کے تحت امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ   "" اللہ تعالی نے انسانی عمر کے تین مراتب بنائے ہیں، "‌‍"‌‍
بچپن،     جوانی،    بڑھاپا، 
         اور یہ ترتیب عین عقل کے مطابق ہے،کیونکہ انسان اپنی عمر کے ابتدا میں نشو و نما کے عرصہ میں ہوتا ہے اسی کا نام  ""طفولیت"" (بچپنہے، حتی کہ وہ نشو و نما کے کمال کو پہنچ جاتا ہے اور اسے کوئی ضعف و کمزوری لاحق نہیں ہوتی، یہی چیز  ""جوانی""  کہلاتی ہے، پھر وہ واپس آنا شروع ہوجاتا ہے، اور اس کے اندر کمزوری و نقص کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں، اور یہی شیخوخت ( بڑھاپاکا مرتبہ ہے۔
( التفسیر الکبیر للرازی
       طفولیت و بچپن کے ذکر کی علاوہ قرآن نے    "بچوں سے محبت کے اشارات کئے ہے"۔
" بچوں کے حقوق کا ذکر بھی قرآن نے اپنے مخصوص انداز میں کیا"۔
"‌‍ بچوں کے تحفظ کی طرف بھی متوجہ بھی  کیا ہے. "‌‍
         اگر قرآن کی آیات و تعلیمات پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی ایسا امر جو  بچوں اور بچیوں سے متعلق ہو یا بچپن سے تعلق رکھتا ہو اور اہم بھی ہو تو قرآن نے نہ صرف صراحتا یا اشارتاً  ذکر کیا ہے بلکہ بعض اہم ترین اور ضروری باتوں کا حکم بھی دیا ہے ۔
۲۴ / ۰۹ / ۲۰۱۷
جاری
ان شاء اللہ العزیز✒✒✒✒


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔