Pages

Monday 18 September 2017

!!! تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام !!! "قسط نمبر ایک" محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!


!!! تربیتِ اولاد اور مذہبِ اسلام !!!
"قسط نمبر ایک"
ـــــــــــــــــــــــ
محرر !!! ابن الادریس میترانوی !!!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بچوں کے متعلق، ماں باپ سے قرآن کا مطالبہ.....
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

          کائنات میں سب سے افضل و اشرف مخلوق حضرتِ انسان ہے، جس کی ابتدا ابو البشر حضرت آدم علیہ الصلوة و السلام سے ہوئی ہے اور  سلسلہ تا ہنوز جاری ہے، جب تک اللہ تعالی کی مشیت ہوگی تب تک یہ سلسلۂ توالد و تناسل چلتا رہے گا.
      یہ انسان نہ صرف اشرف و اہم مخلوق ہے بلکہ اس دنیا کی بقاء و فنا بھی موقوف ہے اس کی صلاح و فساد پر، اس کے بننے اور سنورنے پر، جس کا حقیقی اور بنیادی تعلق انسان کی پیدائش اور زمانۂ طفولیت و بچپن سے ہے، کیونکہ جس طرح انسان کا ظاہری جسم درجہ بدرجہ اور رفتہ رفتہ بڑھتا ہے اسی طرح اس میں موجود پوشیدہ صلاحیتیں اور صفات  بھی پروان چڑھتی ہیں، وہ بڑا ہو کر یا تو ایک صالح و مُصلِح انسان کے روپ میں دنیا اور اھلِ دنیا کے لئے نفع بخش ثابت ہوتا ہے یا  پھر  ناکارہ و ناکام انسان بن کر مٹی کا ایک ایسا پتلا ہوتا ہے جو دوسروں کا ہی نہیں خود اپنی ذات کا بھی دشمن بن جاتا ہے۔
          ہر دو کا تعلق اس کے بچپن کے ساتھ ہے۔ جس طرح ایک نو خیز پودا جب زمین پر اُگتا ہے اور اس کی نشو و نما پر خاص توجہ دی جاتی ہے تو  نہ صرف وہ تناور درخت بنتا ہے بلکہ پھل دار و سایہ دار ہوتا ہے، جس سے نسلوں کی نسلیں نفع اٹھاتی ہیں، اور اگر اس پودا کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے، اس کی نشو و نما ، تراش خراش، دیکھ بھال کی طرف توجہ نہ دی جائے اور ابتدا ہی میں اس میں کجی اور خرابی آگئی  تو تناور درخت  بن جانے کے بعد اس کی اصلاح کی تمام تر کوششیں ناکام ہوتی ہیں، اسی طرح نو مولود و نو خیز بچے ہوتے ہیں اگر ان بچوں کے ماں، پاب، مُرَبّیان ، اساتذہ اور سر پرستوں نے بچپن ہی سے تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دی اور  اصولِ تعلیم و تربیت کو مدِ نظر رکھ کر اس نو خیز کو پروان چڑھایا تو نہ صرف وہ اپنی ذات کا بلکہ پورے عالم کا خیر خواہ ہوگا، جس سے خلقِ عظیم کو نفع ہوگا اور اگر اس  میں کمی رہ گئی، نہ تعلیم کی فکر کی گئی، نہ تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی گئی تو یہ بچہ اپنی ذات کے ساتھ پوری انسانیت کا دشمن ہوگا۔
         اسکی زبان، اس کے اخلاق، اس کی عادات بلکہ زندگی کی تمام حرکات و سکنات سے امت و انسانیت کو نقصان ہوگا،  جس کی تمام تر ذمہ داری ماں باپ پر آتی ہے۔ اسی وجہ سے شریعت نے اس کی طرف خاص توجہ دی ہے، ابھی بچہ دنیا میں نہیں آیا ہے اور شریعت نے ماں پاب کو حکم دیا اور فکرمند کیا، اس کی اہمیت کا احساس دلایا ہے، اس پیدا ہونے والے بچے کے کے لئے جامع ترین الفاظ میں دعاء کروائی ہے۔
{ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا }
       (   سورة الفرقان / آیت نمبر ۷۴ )
ترجمہ......
" اے ہمارے پروردگار  !  ہمیں اپنی بیوی اور بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیز گاروں کا سر براہ بنادے "‌‍
( آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی )
قرآن کی یہ دعائیہ آیت اور اس کا اسلوب، الفاظ جس کے اخیر میں خصوصا یہ کہلوایا  گیا اور دعاء کروائی گئی کہ

" باری تعالی ہم کو متقین کا امام بنا"
       
              مادرِ رحِم میں پروان چڑھنے والے بچہ کے لئے، گود میں پرورش پانے والے طفلِ نو مولود کے لئے، آنے والی نسلوں کے لئے یہ جذبہ پیدا کروایا گیا  کہ ان کے سر پرست اور ماں باپ انکی تربیت و تعلیم اس انداز سے کریں کہ یہ صرف نیک و صالح اور پرہیزگار و متقی ہی نہ بنیں بلکہ اس جماعتِ صلحاء کے ائمہ بنیں،
گروہِ  متقین کے مقتدٰی بنیں،
نیکو کاروں کے پیشوا بنیں،
پرہیز گاروں کے لئے مشعلِ راہ بنیں،
ملک و ملت کے لئے قائدانہ صلاحیت کے حامل ہوں، 
اصلاحی و انقلابی صفات و کردار کے حامل ہوں،
علم و عمل کی مشعلیں جلا کر کائناتِ انسانی کو منور و روشن کریں،
مجدِّدانہ افکار و نظریات کے حامل ہوں،
نہ صرف انکی تعلیم و تربیت ہو بلکہ ان میں اس میدان کی انقلابی روح پروان چڑھے،
امت کی بھنور میں پھنسی نیا کو کنارہ پر لگانے کی استعداد رکھتے ہوں  ۔
      اسلام ایسی ماں کی گود کا متقاضی ہے،
شریعت میں  ایسی پدرانہ شفقت مطلوب ہے جس کے سایہ تلے پروان چڑھنے والی نسل ہر آن اجتماعی مفاد کو مقدم رکھنے کا جذبہ رکھتی ہو، اور ذاتی اغراض کو پس و پیش کرکے ہمیشہ ملک و ملت کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر زندگی بسر کرنے کا جذبہ ان کے دلوں میں موجزن ہو۔
        اب آپ ہی غور فرمائیں کہ گود میں پرورش پانے والی نسلوں اور پروان چرھنے والے بچوں  کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اس سے بہتر، مختصر اور جامع، فصیح و بلیغ انداز کیا ہوسکتا ہے ؟؟   قرآنی آیت کا دعائیہ انداز اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ماں باپ اور اساتذہ نہ صرف بچوں کے لئے ان میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے کی دعا کریں بلکہ ان تمام وسائل و اسباب کو بھی جانیں، سمجھیں، سیکھیں جن کے ذریعے بچوں میں یہ استعداد پیدا ہو سکے، اس لئے لئے ہر آنا ہر گھڑی فکر مند اور کوشاں رہیں، ان اصولوں کو اپنائیں جن کے توسط سے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرسکیں ۔
     یہ بظاہر ایک مختصر دعا ہے جو قرآن نے سکھائی اور بتائی ہے، لیکن اس دعا کے الفاظ و اسلوب کے اختصار و جامعیت کے ساتھ ساتھ اس میں جو گہرائی اور پیغام ہے اور اس کی جو روح ہے وہ اہم ترین اور نہایت ضروری امر ہے۔

۱۷ / ۰۹ / ۲۰۱۷

جاری

ان شاء اللہ العزیز......   ✒✒✒✒✒
مکمل تحریر >>